جہانگیر صدیقی پرنسپل فنڈ میں غلط پیسہ لگانے پر دو ارب روپے کا مزید نقصان ہوا






نوٹ یہ خبر ممتاز صحافی جناب روف کلاسرا کیخبر ہے جو دنیا نیوز میں شائع ہوئی تھی 




نیشنل انشورنس سکینڈل: بااثر ملزمان ضمانت پر رہا

Posted by admin  /   July 02, 2012  /   Posted in سپیشل رپورٹس  /   8 Comments
اسلام آباد ( رؤف کلاسرا) ڈیرھ سال قبل نیشنل انشورنس کارپوریشن 
میں تقریباً نو ارب روپے کے ’گھپلے‘ کے ذمہ دار بڑے افسران اور 
بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کو ماتحت عدالتوں نے رہا کر دیا ہے جب
 کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ابھی بھی اس سکینڈل کی سماعت 
جاری ہے۔
ٹاپ سٹوری آن لائن کو ملنے والی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے
 کہ کاغذی کارروائی کے نام پر جہاں این آئی سی ایل کے گیارہ کے
 قریب چھوٹے ملازمین کے خلاف ایکشن لیا گیا تھا، جن میں سے کئی
 ابھی تک جیل میں ہیں، وہاں این آئی ایل سی کے تمام ڈائریکٹرز کو
 ایک ایک کر کے ضمانتیں ہو چکی ہیں جب کہ چھوٹے ملازمین ہمشیہ
 کی طرح پھنس گئے ہیں اور اچھے وکیل نہ ملنے کے سبب وہ جیلوں
 میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ این آئی سی ایل میں کل 33 کے قریب ایسے
 چھوٹے بڑے سکینڈلز پچھلے چند برسوں میں سامنے آئے تھے جن
 میں بدعنوانیوں کی وجہ سے کل نو ارب روپے کے قریب کارپوریشن 
کا نقصان ہوا۔
ان بے قاعدگیوں کا ذمہ دار چیئرمین این آئی سی ایل اور بورڈ کے 
دوسرے ارکان کو ٹھہرایا گیا تھا جنہوں نے ایسے غلط معاہدوں کی 
منظوری دی تھی جس کی وجہ سے کارپوریش کو نو ارب روپے کے 
قریب نقصان ہوا تھا۔ سب سے بڑا سکینڈل لاہور میں جنرل مشرف کے
 دوست اور سابق وفاقی وزیر حیبب اللہ وڑائچ کے بیٹے محسن وڑائچ کا
 تھا جس میں بعد میں مونس الہی کا نام بھی سامنے آیا اور بعد ازاں
 انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس ڈیل میں محسن وڑائچ نے این آئی سی ایل کو جو زمین چالیس 
کروڑ روپے کی تھی اسے ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے میں بیچا تھا۔
 یوں ایک ڈیل میں ایک ارب اور بیس کروڑ روپے کما لیے گئے تھے 
جب کہ اتنا ہی این آئی سی ایل کو نقصان ہوا تھا۔ اس پر سپریم کورٹ
 نے سو موٹو نوٹس لیا تھا اور اس سکینڈل کے تمام کرداروں بشمول
 حبیب وڑائچ اور مونس الہی کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ محسن 
وڑائچ برطانیہ فرار ہو گئے تھے۔ ان کے علاوہ چیرمین این آئی سی ایل
 ایاز خان نیاز ی کو بھی گرفتار کیا گیاتھا اور ایف آئی اے نے ان سے
 تفتیش کی تھی۔
اس طرح محسن وڑائچ نے این آئی سی ایل سے ایک اور ڈیل کی اور
 لاہور ائرپورٹ کے نزدیک بیس کنال زمین مارکیٹ پرائس سے پچاس
 کروڑ روپے زیادہ پر فروخت کی۔ یوں صرف محسن وڑائچ نے اکیلے 
این آئی سی ایل سے دو ارب روپے سے زیادہ مال کما لیا تھا۔ ان پر یہ
 بھی الزام تھا کہ انہوں نے دو ارب روپے تو این آئی سی ایل سے پہلے
 لے لیے تھے لیکن زمین ٹرانسفر نہیں کرائی تھی کیونکہ وہ زمین 
جس کے عوض انہوں نے پیسے لیے تھے وہ ان کے اپنے نام ہی نہیں
 تھی۔ یوں این آئی سی ایل نے دو ارب کی ادائیگی بھی کی لیکن اسے 
زمین بھی ٹرانسفر نہ ہو سکی۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد جب حبیب وڑائچ اور مونس الہی
 کو گرفتار کیا گیا تو محسن وڑائچ نے اپنے والد اور دوست کو بچانے 
کے لیے ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے بمع سود واپس کیے تھے جب کہ
 ائرپورٹ کی زمین کے سودے میں انہوں نے ابھی بھی بیالیس کروڑ
 روپے ادا کرنے ہیں۔
اس ڈیل کے بعد، این آئی سی ایل نے کورنگی کراچی میں دس ایکڑ
 زمین خریدی جس کی مارکیٹ میں قیمت اڑتالیس کروڑ روپے تھی لیکن
 فروخت کرنیو الی پارٹی کو نوے کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے۔ یوں 
اس ڈیل میں این آئی سی ایل کو انچاس کروڑ روپے کے قریب نقصان 
ہوا تھا۔ یہ وہی ڈیل تھی جس میں سے وزیرتجارت امین فہیم کو بھی 
چار کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے جو ان کی اہلیہ کے بنک اکاونٹ
 میں منتقل کیے گئے تھے اور بعد میں جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو 
امین فہیم نے یہ کہہ کر واپس کر دیے تھے کہ وہ احتجاجاً ایسا کر رہے
 ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی نے غلطی سے یہ رقم ان کے 
اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے امین 
فہیم کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے اور وزارت تجارت 
نے اپنے ہی وزیر کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔
اس طرح ایک اور کیس میں دبئی میں ایک ارب ستر کروڑ روپے کی 
جائیداد اس وقت مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدی گئی تھی جبکہ دبئی
 میں بڑی تیز ی سے قمیتں گر رہی تھیں ۔ اس کے علاوہ بھی این آئی
 سی ایل نے دوبئی میں ستر کروڑ روپے اور چالیس کروڑ روپے کی دو
 مختلف جائیدادیں دبئی میں خریدی تھیں۔ جب کہ اپنی آفس جگہ 
استعمال نہ کرنے پر این آئی سی ایل کو دوبئی میں پانچ ارب کا نقصان
 ہوا۔ این آئی سی ایل نے اس کے علاوہ دس کروڑ روپے کا ایک اور 
نقصان کیا جب انہوں نے فرسٹ داؤد انویسٹمنٹ بنک میں پیسہ لگایا۔ 
اس طرح جہانگیر صدیقی پرنسپل فنڈ میں غلط پیسہ لگانے پر دو ارب
 روپے کا مزید نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ بھی این آئی سی ایل نے 
چھوٹے موٹے ایسے کنٹریکٹ ایوارڈ کیے جس میں کارپوریشن کو مالی
 نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
جب سپریم کورٹ میں این آئی سی ایل کے چند بڑے سکینڈلز پر سو 
موٹو نوٹس لیا گیا تو پتہ چلا کہ اتنے بڑے نقصان کے ذمہ دار کل دس 
لوگ تھے جس میں چیرمین ایاز خان نیازی کا نام سرفہرست تھا جسے
 امین فہیم دوبئی سے لائے تھے جہاں وہ ایک نائٹ کلب کے مینجر 
تھے۔ نیازی کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا لیکن وہ بھی اس وقت 
ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ وہ مونس الہی اور محسن وڑائچ کے بھی
 دوست تھے اور انہوں نے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر 
کارپوریشن کو دو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان دو ڈیلز میں دیا۔
مونس الہی پر الزام تھا کہ اس نے اڑتیس کروڑ روپے محسن وڑائچ
 سے اپنے حصہ کے طور پر اس ڈیل سے لیے تھے جب کہ ایاز نیازی
 پر بھی الزام تھا کہ اس نے بھی محسن وڑائچ سے اپنا حصہ لیا تھا۔ 
مونس کو بعد میں لاہور کی ایک عدالت نے بری کر دیا تھا جس پر 
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے اور این آئی سی ایل کو رگڑا لگایا تھا کہ
 انہوں نے مونس کی بریت کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی تھی۔
این آئی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کے خلاف بھی 
مقدمات درج ہوئے جنہیں گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے ان اربوں 
روپے کی ان ڈیلز کی منظوری دی تھی۔ جن کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں
 نوید زیدی، حر گردیزی، جاوید سعید، محمد ظہور، ایوب صدیقی بٹ، 
اطہر نقوی، جنرل مینجر ریئل اسٹیٹ زاہد حسین اور سابق جنرل مینجر
 لاء اعجاز شیخ شامل تھے۔ امین قاسم دادا واحد بورڈ ممبر تھے جنہیں
 گرفتار نہ کیا جاسکا کیونکہ وہ ملک سے ہی فرار ہوگئے تھے اور آج
 تک انہیں نہیں پکڑے جا سکے۔
تاہم باقی نو ٹاپ ملزمان جنہوں نے این آئی سی ایل کے بورڈ ممبران 
ہوتے ہوئے ان ڈیلز کی منظوری دی تھی کو عدالتوں نے اب ایک ایک 
کر کے ضمانتوں پر رہا کر دیا ہے جب کہ سپریم کورٹ ابھی تک ازخود
 نوٹس پر کاروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

No comments:

Post a Comment